صفحہ اوّل

٭
نہ آتے، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمھارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی!
تامّل تو تھا اُن کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی
کھِنچے خود بخود جانبِ طُور موسیٰؑ
کشش تیری اے شوقِ دیدار کیا تھی!
کہیں ذکر رہتا ہے اقبالؔ تیرا
فسوں تھا کوئی، تیری گُفتار کیا تھی