![]() |
| ترانۂ ہندی | |
| سارے جہاں سے اچھّا ہندوستاں ہمارا ہم بُلبلیں ہیں اس کی، یہ گُلِستاں ہمارا | |
| غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں سمجھو وہیں ہمیں بھی، دل ہو جہاں ہمارا | |
| پربت وہ سب سے اونچا، ہمسایہ آسماں کا وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباں ہمارا | |
| گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں گلشن ہے جن کے دم سے رشکِ جناں ہمارا | |
| اے آبِ رود گنگا! وہ دن ہیں یاد تجھ کو؟ اُترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا | |
| مذہب نہیں سِکھاتا آپس میں بَیر رکھنا ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا | |
| یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا | |
| کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا | |
| اقبالؔ! کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا | |