صفحہ اوّل

چاند
میرے ویرانے سے کوسوں دُور ہے تیرا وطن
ہے مگر دریائے دل تیری کشش سے موجزن
قصد کس محفل کا ہے؟ آتا ہے کس محفل سے تو؟
زرد رُو شاید ہوا رنجِ رہِ منزل سے تو
آفرنیش میں سراپا نور تُو، ظُلمت ہوں میں
اس سیہ روزی پہ لیکن تیرا ہم قسمت ہوں میں
آہ! مَیں جلتا ہوں سوزِ اشتیاقِ دید سے
تو سراپا سوز داغِ منّتِ خورشید سے
ایک حلقے پر اگر قائم تری رفتار ہے
میری گردش بھی مثالِ گردشِ پَرکار ہے
زندگی کی رہ میں سرگرداں ہے تُو، حیراں ہوں مَیں
تُو فروزاں محفلِ ہستی میں ہے، سوزاں ہوں مَیں
مَیں رہِ منزل میں ہوں، تُو بھی رہِ منزل میں ہے
تیری محفل میں جو خاموشی ہے، میرے دل میں ہے
تُو طلب خُو ہے تو میرا بھی یہی دستور ہے
چاندنی ہے نور تیرا، عشق میرا نور ہے
انجمن ہے ایک میری بھی جہاں رہتا ہوں میں
بزم میں اپنی اگر یکتا ہے تُو، تنہا ہوں مَیں
مہرِ کا پرتَو ترے حق میں ہے پیغامِ اجل
محو کر دیتا ہے مجھ کو جلوۂ حُسنِ ازل
پھر بھی اے ماہِ مبیں! مَیں اور ہوں تُو اور ہے
درد جس پہلو میں اُٹھتا ہو، وہ پہلو اور ہے
گرچہ مَیں ظلمت سراپا ہوں، سراپا نور تو
سینکڑوں منزل ہے ذوقِ آگہی سے دُور تو
جو مری ہستی کا مقصد ہے، مجھے معلوم ہے
یہ چمک وہ ہے، جبیں جس سے تری محروم ہے