حضرتِ انسان | |
جہاں میں دانش و بینش کی ہے کس درجہ ارزانی کوئی شے چھُپ نہیں سکتی کہ یہ عالَم ہے نورانی کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسّم ہائے پِنہانی یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِ آدم کو کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عُریانی یہی فرزندِ آدم ہے کہ جس کے اشکِ خُونیں سے کِیا ہے حضرتِ یزداں نے دریاؤں کو طوفانی فلک کو کیا خبر یہ خاکداں کس کا نشیمن ہے غرض انجم سے ہے کس کے شبستاں کی نگہبانی اگر مقصودِ کُل مَیں ہُوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے مرے ہنگامہ ہائے نَو بہ نَو کی انتہا کیا ہے؟ |