غریبِ شہر ہوں مَیں، سُن تو لے مری فریاد کہ تیرے سینے میں بھی ہوں قیامتیں آباد مری نوائے غم آلود ہے متاعِ عزیز جہاں میں عام نہیں دولتِ دلِ ناشاد گلہ ہے مجھ کو زمانے کی کور ذوقی سے سمجھتا ہے مری محنت کو محنت فرہاد “٭صدائے تیشہ کہ بر سنگ میخورد دگر است خبر بگیر کہ آوازِ تیشہ و جگر است” |