صفحہ اوّل

اِشتراکِیت
قوموں کی روِش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم
بے سُود نہیں رُوس کی یہ گرمیِ رفتار
اندیشہ ہُوا شوخیِ افکار پہ مجبور
فرسُودہ طریقوں سے زمانہ ہُوا بیزار
انساں کی ہوَس نے جنھیں رکھّا تھا چھُپا کر
کھُلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اَسرار
قُرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جِدّتِ کردار
جو حرفِ ’قُلِ العَفو‘ میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دَور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار!