صفحہ اوّل

فلسفہ
افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جَلی ہوں
پوشیدہ نہیں مردِ قلندر کی نظر سے
معلوم ہیں مجھ کو ترے احوال کہ مَیں بھی
مُدّت ہوئی گزرا تھا اسی راہ گزر سے
الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا
غوّاص کو مطلب ہے صدَف سے کہ گُہر سے!
پیدا ہے فقط حلقۂ اربابِ جُنوں میں
وہ عقل کہ پا جاتی ہے شُعلے کو شرر سے
جس معنیِ پیچیدہ کی تصدیق کرے دل
قیمت میں بہت بڑھ کے ہے تابندہ گُہر سے
یا مُردہ ہے یا نَزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لِکھّا نہ گیا خونِ جگر سے