![]()  | 
| کھو نہ جا اس سحَر و شام میں اے صاحبِ ہوش! اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش  | |
| کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام مسجد و مکتب و میخانہ ہیں مُدّت سے خموش  | |
| مَیں نے پایا ہے اُسے اشکِ سحَر گاہی میں جس دُرِ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش  | |
| نئی تہذیب تکلّف کے سوا کچھ بھی نہیں چہرہ روشن ہو تو کیا حاجتِ گُلگُونہ فروش!  | |
| صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے گاہے گاہے غَلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش  | |