صفحہ اوّل

کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سُوئے کوفہ و بغداد
یہ مدرسہ، یہ جواں، یہ سُرور و رعنائی
انھی کے دم سے ہے میخانۂ فرنگ آباد
نہ فلسفی سے، نہ مُلّا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت، وہ اندیشہ و نظر کا فساد
فقیہِ شہر کی تحقیر! کیا مجال مری
مگر یہ بات کہ مَیں ڈھُونڈتا ہوں دل کی کشاد
خرید سکتے ہیں دنیا میں عشرتِ پرویز
خدا کی دین ہے سرمایۂ غمِ فرہاد
کیے ہیں فاش رمُوزِ قلندری میں نے
کہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد
رِشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہَمن کا طِلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد