صفحہ اوّل

حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
عکس اُس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے
نہ ستارے میں ہے، نَے گردشِ افلاک میں ہے
تیری تقدیر مرے نالۂ بے باک میں ہے
یا مری آہ میں کوئی شررِ زندہ نہیں
یا ذرا نم ابھی تیرے خس و خاشاک میں ہے
کیا عجب میری نوا ہائے سحَر گاہی سے
زندہ ہو جائے وہ آتش کہ تری خاک میں ہے
توڑ ڈالے گی یہی خاک طلسمِ شب و روز
گرچہ اُلجھی ہوئی تقدیر کے پیچاک میں ہے