صفحہ اوّل

یہ پِیرانِ کلیسا و حرم، اے وائے مجبوری!
صِلہ ان کی کدوی کاوش کا ہے سینوں کی بے نوری
یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی، کہ جس کے سامنے جھُکتی ہے فغفوری
کبھی حیرت، کبھی مستی، کبھی آہِ سحَرگاہی
بدلتا ہے ہزاروں رنگ میرا دردِ مہجوری
حدِ ادراک سے باہر ہیں باتیں عشق و مستی کی
سمجھ میں اس قدر آیا کہ دل کی موت ہے، دُوری
وہ اپنے حُسن کی مستی سے ہیں مجبورِ پیدائی
مری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسبابِ مستوری
کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ
نہ تھے ترکانِ عثمانی سے کم ترکانِ تیموری
فقیرانِ حرم کے ہاتھ اقبالؔ آگیا کیونکر
میّسر میر و سُلطاں کو نہیں شاہینِ کافوری