![]()  | 
| نہ ہو طُغیانِ مشتاقی تو مَیں رہتا نہیں باقی کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طُغیانِ مشتاقی  | |
| مجھے فطرت نَوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی  | |
| وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھُونک سکتی ہے طلب صادق نہ ہو تیری تو پھر کیا شکوۂ ساقی!  | |
| نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی برّاقی  | |
| دلوں میں ولولے آفاقگیری کے نہیں اُٹھتے نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو اندازِ آفاقی  | |
| خزاں میں بھی کب آ سکتا تھا میں صیّاد کی زد میں مری غمّاز تھی شاخِ نشیمن کی کم اوراقی  | |
| اُلٹ جائیں گی تدبیریں، بدل جائیں گی تقدیریں حقیقت ہے، نہیں میرے تخّیل کی یہ خلّاقی  | |