صفحہ اوّل

نہ ہو طُغیانِ مشتاقی تو مَیں رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طُغیانِ مشتاقی
مجھے فطرت نَوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی
وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھُونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تیری تو پھر کیا شکوۂ ساقی!
نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی برّاقی
دلوں میں ولولے آفاق‌گیری کے نہیں اُٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو اندازِ آفاقی
خزاں میں بھی کب آ سکتا تھا میں صیّاد کی زد میں
مری غمّاز تھی شاخِ نشیمن کی کم اوراقی
اُلٹ جائیں گی تدبیریں، بدل جائیں گی تقدیریں
حقیقت ہے، نہیں میرے تخّیل کی یہ خلّاقی