![]()  | 
| اعجاز ہے کسی کا یا گردشِ زمانہ! ٹُوٹا ہے ایشیا میں سِحرِ فرنگیانہ  | |
| تعمیرِ آشیاں سے میں نے یہ راز پایا اہلِ نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ  | |
| یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی یا بندۂ خدا بن یا بندۂ زمانہ!  | |
| غافل نہ ہو خودی سے، کر اپنی پاسبانی شاید کسی حرم کا تُو بھی ہے آستانہ  | |
| اے لَا اِلٰہ کے وارث! باقی نہیں ہے تجھ میں گُفتارِ دلبرانہ، کردارِ قاہرانہ  | |
| تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندرانہ  | |
| رازِ حرم سے شاید اقبالؔ باخبر ہے ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ  | |