صفحہ اوّل

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر، اُٹھتے ہیں حجاب آخر
احوالِ محبّت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اوّل، سوز و تب و تاب آخر
مَیں تجھ کو بتاتا ہُوں، تقدیرِ اُمَم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر
میخانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرُور اوّل، دیتے ہیں شراب آخر
کیا دبدبۂ نادر، کیا شوکتِ تیموری
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرقِ مئے ناب آخر
خلوَت کی گھڑی گزری، جلوَت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوشِ سحاب آخر
تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر