![]() |
|
(یورپ میں لِکھّے گئے) | |
| خِرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ سِکھائی عشق نے مجھ کو حدیثِ رِندانہ | |
| نہ بادہ ہے، نہ صُراحی، نہ دورِ پیمانہ فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزمِ جانانہ | |
| مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ مَیں ہوں محرمِ رازِ دُرونِ میخانہ | |
| کلی کو دیکھ کہ ہے تشنۂ نسیمِ سحَر اسی میں ہے مرے دل کا تمام افسانہ | |
| کوئی بتائے مجھے یہ غیاب ہے کہ حضور سب آشنا ہیں یہاں، ایک مَیں ہوں بیگانہ | |
| فرنگ میں کوئی دن اور بھی ٹھہَر جاؤں مرے جُنوں کو سنبھالے اگر یہ ویرانہ | |
| مقامِ عقل سے آساں گزر گیا اقبالؔ مقامِ شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ | |