صفحہ اوّل


(یورپ میں لِکھّے گئے)
خِرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سِکھائی عشق نے مجھ کو حدیثِ رِندانہ
نہ بادہ ہے، نہ صُراحی، نہ دورِ پیمانہ
فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزمِ جانانہ
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ مَیں ہوں محرمِ رازِ دُرونِ میخانہ
کلی کو دیکھ کہ ہے تشنۂ نسیمِ سحَر
اسی میں ہے مرے دل کا تمام افسانہ
کوئی بتائے مجھے یہ غیاب ہے کہ حضور
سب آشنا ہیں یہاں، ایک مَیں ہوں بیگانہ
فرنگ میں کوئی دن اور بھی ٹھہَر جاؤں
مرے جُنوں کو سنبھالے اگر یہ ویرانہ
مقامِ عقل سے آساں گزر گیا اقبالؔ
مقامِ شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ