صفحہ اوّل

خراج کی جو گدا ہو، وہ قیصری کیا ہے!
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!
فلَک نے اُن کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
اِسی خطا سے عتابِ مُلُوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہُوں مآلِ سکندری کیا ہے
کسے نہیں ہے تمنّائے سَروری، لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سَروری کیا ہے!
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے!