صفحہ اوّل

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں
گراں بہا ہے تو حِفظِ خودی سے ہے ورنہ
گُہَر میں آبِ گُہَر کے سوا کچھ اور نہیں
رگوں میں گردشِ خُوں ہے اگر تو کیا حاصل
حیات سوزِ جگر کے سوا کچھ اور نہیں
عروسِ لالہ! مُناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب
کہ مَیں نسیمِ سحَر کے سوا کچھ اور نہیں
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شے متاعِ ہُنر کے سوا کچھ اور نہیں
بڑا کریم ہے اقبالِؔ بے نوا لیکن
عطائے شُعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں