![]() |
| یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صُبح گاہی کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی | |
| تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُوسیاہی | |
| نہ دیا نشانِ منزل مجھے اے حکیم تُو نے مجھے کیا گِلہ ہو تجھ سے، تُو نہ رہنشیں نہ راہی | |
| مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیرِ تربیت ہیں وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسمِ کجکلاہی | |
| یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تُو کر کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی | |
| تُو ہُما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری نہیں مصلحت سے خالی یہ جہانِ مُرغ و ماہی | |
| تُو عَرب ہو یا عجَم ہو، ترا ’ لَا اِلٰہ اِلاَّ‘ لُغَتِ غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی | |