صفحہ اوّل

دلِ بیدار فاروقی، دلِ بیدار کرّاری
مِسِ آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری
دلِ بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک
نہ تیری ضرب ہے کاری، نہ میری ضرب ہے کاری
مَشامِ تیز سے ملتا ہے صحرا میں نشاں اس کا
ظن و تخمیں سے ہاتھ آتا نہیں آہُوئے تاتاری
اس اندیشے سے ضبطِ آہ مَیں کرتا رہوں کب تک
کہ مُغ‌زادے نہ لے جائیں تری قسمت کی چنگاری
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیّاری ہے، سُلطانی بھی عیّاری
مجھے تہذیبِ حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے، باطن میں گرفتاری
تُو اے مولائے یثرِبؐ! آپ میری چارہ‌سازی کر
مِری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زُناّری