![]()  | 
| یا رب! یہ جہانِ گزَراں خوب ہے لیکن کیوں خوار ہیں مردانِ صفا کیش و ہُنرمند  | |
| گو اس کی خُدائی میں مہاجن کا بھی ہے ہاتھ دنیا تو سمجھتی ہے فرنگی کو خداوند  | |
| تو برگِ گِیاہے ندہی اہلِ خرد را او کِشتِ گُل و لالہ بہ بخشد بخرے چند  | |
| حاضر ہیں کلیسا میں کباب و مئے گُلگوں مسجد میں دھرا کیا ہے بجز مَوعظہ و پند  | |
| احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسّر تاویل سے قُرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند  | |
| فردوس جو تیرا ہے، کسی نے نہیں دیکھا افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند  | |
| مُدّت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر کر دے اسے اب چاند کی غاروں میں نظربند  | |
| فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر مَلکوتی خاکی ہُوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند  | |
| درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی گھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں، نہ سمرقند  | |
| کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے اَبلہِ مسجد ہُوں، نہ تہذیب کا فرزند  | |
| اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش میں زہرِ ہَلاہِل کو کبھی کہہ نہ سکا قند  | |
| مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بین و حق اندیش خاشاک کے تودے کو کہے کوہِ دماوند  | |
| ہُوں آتشِ نمرود کے شُعلوں میں بھی خاموش میں بندۂ مومن ہوں، نہیں دانۂ اسپند  | |
| پُر سوز و نظرباز و نِکوبین و کم آزار آزاد و گرفتار و تہی کِیسہ و خورسند  | |
| ہر حال میں میرا دلِ بے قید ہے خُرّم کیا چھینے گا غُنچے سے کوئی ذوقِ شکر خند!  | |
| چُپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبالؔ کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا مُنہ بند!  | |