صفحہ اوّل

ضمیرِ لالہ مئے لعل سے ہُوا لبریز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز
بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی
کِیا ہے اس نے فقیروں کو وارثِ پرویز
پُرانے ہیں یہ ستارے، فلک بھی فرسُودہ
جہاں وہ چاہیے مجھ کو کہ ہو ابھی نَوخیز
کسے خبر ہے کہ ہنگامۂ نشور ہے کیا
تری نگاہ کی گردش ہے میری رستاخیز
نہ چھین لذّتِ آہِ سحَرگہی مجھ سے
نہ کر نِگہ سے تغافل کو التفات آمیز
دلِ غمیں کے موافق نہیں ہے موسمِ گُل
صدائے مُرغِ چمن ہے بہت نشاط انگیز
حدیثِ بے خبراں ہے، تو با زمانہ بساز
زمانہ با تو نسازد، تو با زمانہ ستیز