صفحہ اوّل

گیسوئے تاب‌دار کو اور بھی تاب‌دار کر
ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر
عشق بھی ہو حجاب میں، حُسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
تُو ہے محیطِ بےکراں، میں ہُوں ذرا سی آبُجو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
میں ہُوں صدَف تو تیرے ہاتھ میرے گُہر کی آبرو
میں ہُوں خزَف تو تُو مجھے گوہرِ شاہوار کر
نغمۂ نَو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دمِ نیم سوز کو طائرکِ بہار کر
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر
روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر