|  | 
| ٭ | |
| مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پُرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا | |
| کیا خوب امیرِ فیصل کو سَنّوسی نے پیغام دیا تُو نام و نَسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا | |
| تر آنکھیں تو ہو جاتی ہیں، پر کیا لذّت اس رونے میں جب خُونِ جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا | |
| اقبالؔ بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتارکا یہ غازی تو بنا،کردار کا غازی بن نہ سکا | |