![]() |
| ٭ | |
| پردہ چہرے سے اُٹھا، انجمن آرائی کر چشمِ مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر | |
| تُو جو بجلی ہے تو یہ چشمک پنہاں کب تک بے حجابانہ مرے دل سے شناسائی کر | |
| نفَسِ گرم کی تاثیر ہے اعجازِ حیات تیرے سینے میں اگر ہے تو مسیحائی کر | |
| کب تلک طُور پہ دریُوزہ گری مثلِ کلیم اپنی ہستی سے عیاں شعلۂ سینائی کر | |
| ہو تری خاک کے ہر ذرّے سے تعمیرِ حرم دل کو بیگانۂ اندازِ کلیسائی کر | |
| اس گُلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھّا ناز بھی کر تو بہ اندازۂ رعنائی کر | |
| پہلے خوددار تو مانندِ سکندر ہو لے پھر جہاں میں ہَوسِ شوکتِ دارائی کر | |
| مِل ہی جائے گی کبھی منزلِ لیلیٰ اقبالؔ! کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر | |