صفحہ اوّل

٭
نالہ ہے بُلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
پُختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی
شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زُنّاریِ بُت خانۂ ایّام ابھی
عُذرِ پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوشِ انجام ابھی
سعیِ پیہم ہے ترازُوئے کم و کیفِ حیات
تیری میزاں ہے شمارِ سحَر و شام ابھی
ابرِ نیساں! یہ تنک بخشیِ شبنم کب تک
مرے کُہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی
بادہ گردانِ عجَم وہ، عَربی میری شراب
مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی
خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم
نَو گرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی