![]() |
| ٭ | |
| نالہ ہے بُلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی | |
| پُختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی | |
| بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی | |
| عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی | |
| شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی تو ہے زُنّاریِ بُت خانۂ ایّام ابھی | |
| عُذرِ پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی ہے ترے دل میں وہی کاوشِ انجام ابھی | |
| سعیِ پیہم ہے ترازُوئے کم و کیفِ حیات تیری میزاں ہے شمارِ سحَر و شام ابھی | |
| ابرِ نیساں! یہ تنک بخشیِ شبنم کب تک مرے کُہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی | |
| بادہ گردانِ عجَم وہ، عَربی میری شراب مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی | |
| خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم نَو گرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی | |