![]() |
|
ماں کا خواب (ماخوذ) بچوں کے لیے | |
| میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب بڑھا اور جس سے مرا اضطراب | |
| یہ دیکھا کہ مَیں جا رہی ہوں کہیں اندھیرا ہے اور راہ مِلتی نہیں | |
| لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال قدم کا تھا دہشت سے اُٹھنا محال | |
| جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی | |
| زَمرّد سی پوشاک پہنے ہوئے دِیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے | |
| وہ چُپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں خدا جانے جانا تھا اُن کو کہاں | |
| اسی سوچ میں تھی کہ میرا پِسر مجھے اُس جماعت میں آیا نظر | |
| وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا دِیا اُس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا | |
| کہا مَیں نے پہچان کر، میری جاں! مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں؟ | |
| جُدائی میں رہتی ہوں مَیں بے قرار پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار | |
| نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی گئے چھوڑ، اچھّی وفا تم نے کی! | |
| جو بچّے نے دیکھا مرا پیچ و تاب دیا اُس نے مُنہ پھیر کر یوں جواب | |
| رُلاتی ہے تجھ کو جُدائی مری نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری | |
| یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چُپ رہا دِیا پھر دِکھا کر یہ کہنے لگا | |
| سمجھتی ہے تُو ہو گیا کیا اسے؟ ترے آنسوؤں نے بُجھایا اسے! | |