صفحہ اوّل

نصیحت
میں نے اقبالؔ سے از راہِ نصیحت یہ کہا
عاملِ روزہ ہے تُو اور نہ پابند نماز
تُو بھی ہے شیوۂ اربابِ ریا میں کامل
دل میں لندن کی ہوَس، لب پہ ترے ذکرِ حجاز
جھُوٹ بھی مصلحت آمیز ترا ہوتا ہے
تیرا اندازِ تملُّق بھی سراپا اعجاز
ختم تقریر تری مدحتِ سرکار پہ ہے
فکرِ روشن ہے ترا مُوجدِ آئینِ نیاز
درِ حکّام بھی ہے تجھ کو مقامِ محمود
پالِسی بھی تری پیچیدہ تر از زلفِ ایاز
اور لوگوں کی طرح تُو بھی چھُپا سکتا ہے
پردۂ خدمتِ دیں میں ہوَسِ جاہ کا راز
نظر آجاتا ہے مسجد میں بھی تُو عید کے دن
اثرِ وعظ سے ہوتی ہے طبیعت بھی گداز
دست پرورد ترے مُلک کے اخبار بھی ہیں
چھیڑنا فرض ہے جن پر تری تشہیر کا ساز
اس پہ طُرّہ ہے کہ تُو شعر بھی کہہ سکتا ہے
تیری مِینائے سخن میں ہے شرابِ شیراز
جتنے اوصاف ہیں لیڈر کے، وہ ہیں تجھ میں سبھی
تجھ کو لازم ہے کہ ہو اُٹھ کے شریکِ تگ و تاز
غمِ صیّاد نہیں، اور پر و بال بھی ہیں
پھر سبب کیا ہے، نہیں تجھ کو دماغِ پرواز
“عاقبت منزلِ ما وادیِ خاموشان است
حالیا غُلغلہ در گنبدِ افلاک انداز”