![]() |
| ٭ | |
| یوں تو اے بزمِ جہاں! دِلکش تھے ہنگامے ترے اک ذرا افسردگی تیرے تماشاؤں میں تھی | |
| پا گئی آسودگی کُوئے محبّت میں وہ خاک مُدّتوں آوارہ جو حکمت کے صحراؤں میں تھی | |
| کس قدر اے مے! تجھے رسمِ حجاب آئی پسند پردۂ انگور سے نکلی تو مِیناؤں میں تھی | |
| حُسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم اتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی | |
| میں نے اے اقبالؔ یورپ میں اُسے ڈھونڈا عبث بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی | |