![]() |
| ٭ | |
| زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اُٹھّے گا گفتگو کا مری خموشی نہیں ہے، گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا | |
| جو موجِ دریا لگی یہ کہنے، سفر سے قائم ہے شان میری گُہر یہ بولا صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا | |
| نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل، وہ تربیت سے نہیں سنورتے ہُوا نہ سرسبز رہ کے پانی میں عکس سروِ کنارِ جُو کا | |
| کوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنّا الٰہی تیرا جہان کیا ہے، نگار خانہ ہے آرزو کا | |
| کھُلا یہ مر کر کہ زندگی اپنی تھی طلسمِ ہوَس سراپا جسے سمجھتے تھے جسمِ خاکی، غُبار تھا کُوئے آرزو کا | |
| اگر کوئی شے نہیں ہے پنہاں تو کیوں سراپا تلاش ہوں میں نِگہ کو نظّارے کی تمنا ہے، دل کو سودا ہے جُستجو کا | |
| چمن میں گُلچیں سے غنچہ کہتا تھا، اتنا بیدرد کیوں ہے انساں تری نگاہوں میں ہے تبسّم شکستہ ہونا مرے سبو کا | |
| ریاضِ ہستی کے ذرّے ذرّے سے ہے محبّت کا جلوہ پیدا حقیقتِ گُل کو تُو جو سمجھے تو یہ بھی پیماں ہے رنگ و بو کا | |
| تمام مضموں مرے پرانے، کلام میرا خطا سراپا ہُنر کوئی دیکھتا ہے مجھ میں تو عیب ہے میرے عیب جُو کا | |
| سپاس شرطِ ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر ذرا سا اک دل دیا ہے، وہ بھی فریب خوردہ ہے آرزو کا | |
| کمالِ وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوکِ نشتر سے تُو جو چھیڑے یقیں ہے مجھ کو گرے رگِ گُل سے قطرہ انسان کے لہُو کا | |
| گیا ہے تقلید کا زمانہ، مجاز رختِ سفر اُٹھائے ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا | |
| جو گھر سے اقبالؔ دور ہُوں میں، تو ہوں نہ مُحزوں عزیز میرے مثالِ گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا | |