![]() |
| کوششِ نا تما م | |
| فُرقتِ آفتاب میں کھاتی ہے پیچ و تاب صُبح چشمِ شفَق ہے خوں فشاں اخترِ شام کے لیے | |
| رہتی ہے قیسِ روز کو لیلیِ شام کی ہوس اخترِ صبح مضطرب تابِ دوام کے لیے | |
| کہتا تھا قطبِ آسماں قافلۂ نجوم سے ہمرہو، میں ترس گیا لُطفِ خرام کے لیے | |
| سوتوں کو ندّیوں کا شوق، بحر کا ندّیوں کو عشق موجۂ بحر کو تپش ماہِ تمام کے لیے | |
| حُسنِ ازل کہ پردۂ لالہ و گُل میں ہے نہاں کہتے ہیں بے قرار ہے جلوۂ عام کے لیے | |
| رازِ حیات پُوچھ لے خِضرِ خجستہ گام سے زندہ ہر ایک چیز ہے کوششِ نا تمام سے | |