صفحہ اوّل

کوششِ نا تما م
فُرقتِ آفتاب میں کھاتی ہے پیچ و تاب صُبح
چشمِ شفَق ہے خوں فشاں اخترِ شام کے لیے
رہتی ہے قیسِ روز کو لیلیِ شام کی ہوس
اخترِ صبح مضطرب تابِ دوام کے لیے
کہتا تھا قطبِ آسماں قافلۂ نجوم سے
ہمرہو، میں ترس گیا لُطفِ خرام کے لیے
سوتوں کو ندّیوں کا شوق، بحر کا ندّیوں کو عشق
موجۂ بحر کو تپش ماہِ تمام کے لیے
حُسنِ ازل کہ پردۂ لالہ و گُل میں ہے نہاں
کہتے ہیں بے قرار ہے جلوۂ عام کے لیے
رازِ حیات پُوچھ لے خِضرِ خجستہ گام سے
زندہ ہر ایک چیز ہے کوششِ نا تمام سے