صفحہ اوّل

چاند اور تارے
ڈرتے ڈرتے دمِ سحر سے
تارے کہنے لگے قمر سے
نظّارے رہے وہی فلک پر
ہم تھک بھی گئے چمک چمک کر
کام اپنا ہے صبح و شام چلنا
چلنا، چلنا، مدام چلنا
بے تاب ہے اس جہاں کی ہر شے
کہتے ہیں جسے سکُوں، نہیں ہے
رہتے ہیں ستم کشِ سفر سب
تارے، انساں، شجر، حجر سب
ہوگا کبھی ختم یہ سفر کیا
منزل کبھی آئے گی نظر کیا
کہنے لگا چاند، ہم نشینو
اے مزرعِ شب کے خوشہ چینو!
جُنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
ہے دوڑتا اشہبِ زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ
اس رہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نِکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا، کُچل گئے ہیں
انجام ہے اس خرام کا حُسن
آغاز ہے عشق، انتہا حُسن