صفحہ اوّل

سوامی رام تیر تھ
ہم بغَل دریا سے ہے اے قطرۂ بے تاب تو
پہلے گوہر تھا، بنا اب گوہرِ نایاب تو
آہ! کھولا کس ادا سے تو نے رازِ رنگ و بو
میں ابھی تک ہوں اسیرِ امتیازِ رنگ و بو
مِٹ کے غوغا زندگی کا شورشِ محشر بنا
یہ شرارہ بُجھ کے آتش خانۂ آزر بنا
نفیِ ہستی اک کرشمہ ہے دلِ آگاہ کا
’لا‘ کے دریا میں نہاں موتی ہے ’الاّ اللہ‘ کا
چشمِ نابینا سے مخفی معنیِ انجام ہے
تھم گئی جس دم تڑپ، سیماب سیمِ خام ہے
توڑ دیتا ہے بُتِ ہستی کو ابراہیمِ عشق
ہوش کا دارُو ہے گویا مستیِ تسنیمِ عشق