صفحہ اوّل

محبّت
عروسِ شب کی زُلفیں تھیں ابھی ناآشنا خَم سے
ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذّتِ رم سے
قمر اپنے لباسِ نَو میں بیگانہ سا لگتا تھا
نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئینِ مسلّم سے
ابھی امکاں کے ظُلمت خانے سے اُبھری ہی تھی دنیا
مذاقِ زندگی پوشیدہ تھا پہنائے عالم سے
کمالِ نظمِ ہستی کی ابھی تھی ابتدا گویا
ہوَیدا تھی نگینے کی تمنّا چشمِ خاتم سے
سُنا ہے عالمِ بالا میں کوئی کیمیاگر تھا
صفا تھی جس کی خاکِ پا میں بڑھ کر ساغرِ جم سے
لِکھا تھا عرش کے پائے پہ اک اِکسیر کا نسخہ
چھُپاتے تھے فرشتے جس کو چشمِ رُوحِ آدم سے
نگاہیں تاک میں رہتی تھیں لیکن کیمیاگر کی
وہ اس نسخے کو بڑھ کر جانتا تھا اسمِ اعظم سے
بڑھا تسبیح خوانی کے بہانے عرش کی جانب
تمنّائے دلی آخر بر آئی سعیِ پیہم سے
پھرایا فکرِ اجزا نے اُسے میدانِ امکاں میں
چھُپے گی کیا کوئی شے بارگاہِ حق کے مَحرم سے
چمک تارے سے مانگی، چاند سے داغِ جگر مانگا
اُڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زُلفِ برہم سے
تڑپ بجلی سے پائی، حُور سے پاکیزگی پائی
حرارت لی نفَسہائے مسیحِ ابنِ مریمؑ سے
ذرا سی پھر ربوبِیّت سے شانِ بے نیازی لی
مَلک سے عاجزی، اُفتادگی تقدیرِ شبنم سے
پھر ان اجزا کو گھولا چشمۂ حیواں کے پانی میں
مرکّب نے محبّت نام پایا عرشِ اعظم سے
مُہوّس نے یہ پانی ہستیِ نوخیز پر چھِڑکا
گرہ کھولی ہُنر نے اُس کے گویا کارِ عالم سے
ہوئی جُنبش عیاں، ذرّوں نے لُطفِ خواب کو چھوڑا
گلے ملنے لگے اُٹھ اُٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے
خرامِ ناز پایا آفتابوں نے، ستاروں نے
چٹک غُنچوں نے پائی، داغ پائے لالہ زاروں نے