![]() |
| ٭ | |
| ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں | |
| ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی کوئی بات صبرآزما چاہتا ہوں | |
| یہ جنّت مبارک رہے زاہدوں کو کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں | |
| ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا وہی لن ترانی سُنا چاہتا ہوں | |
| کوئی دَم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل چراغِ سحَر ہوں، بُجھا چاہتا ہوں | |
| بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں | |