![]() |
| ٭ | |
| جنھیں مَیں ڈھُونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں | |
| حقیقت اپنی آنکھوں پر نمایاں جب ہوئی اپنی مکاں نکلا ہمارے خانۂ دل کے مکینوں میں | |
| اگر کچھ آشنا ہوتا مذاقِ جبَہہ سائی سے تو سنگِ آستانِ کعبہ جا مِلتا جبینوں میں | |
| کبھی اپنا بھی نظّارہ کِیا ہے تو نے اے مجنوں کہ لیلیٰ کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں | |
| مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں مگر گھڑیاں جُدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں | |
| مجھے روکے گا تُو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے کہ جن کو ڈوبنا ہو، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں | |
| چھُپایا حُسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا نازنینوں میں | |
| جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نفَس ان کی الٰہی! کیا چھُپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں | |
| تمنّا دردِ دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں | |
| نہ پُوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں | |
| ترستی ہے نگاہِ نارسا جس کے نظارے کو وہ رونق انجمن کی ہے انھی خلوت گزینوں میں | |
| کسی ایسے شرر سے پھُونک اپنے خرمنِ دل کو کہ خورشیدِ قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں | |
| محبّت کے لیے دل ڈھُونڈ کوئی ٹُوٹنے والا یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں | |
| سراپا حُسن بن جاتا ہے جس کے حُسن کا عاشق بھلا اے دل حسیں ایسا بھی ہے کوئی حسیِنوں میں | |
| پھڑک اُٹھّا کوئی تیری ادائے ’مَا عَرَفْنا‘ پر ترا رُتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرینوں میں | |
| نمایاں ہو کے دِکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا بہت مدّت سے چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں | |
| خموش اے دل!، بھری محفل میں چِلّانا نہیں اچھّا ادب پہلا قرینہ ہے محبّت کے قرینوں میں | |
| بُرا سمجھوں انھیں، مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا کہ میں خود بھی تو ہوں اقبالؔ اپنے نُکتہ چینوں میں | |