![]() |
| ٭ | |
| لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جَلانے کے لیے | |
| وائے ناکامی، فلک نے تاک کر توڑا اُسے میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے | |
| آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد و دو ملّت سے تری ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے | |
| دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے | |
| جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چُن کے تُو آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے | |
| پاس تھا ناکامیِ صیّاد کا اے ہم صفیر ورنہ مَیں، اور اُڑ کے آتا ایک دانے کے لیے! | |
| اس چمن میں مرغِ دل گائے نہ آزادی کا گیت آہ! یہ گُلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے | |