![]() |
| ٭ | |
| عجب واعظ کی دیںداری ہے یا رب! عداوت ہے اسے سارے جہاں سے | |
| کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں کہاں جاتا ہے، آتا ہے کہاں سے | |
| وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے | |
| ہم اپنی دردمندی کا فسانہ سُنا کرتے ہیں اپنے رازداں سے | |
| بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں لَرز جاتا ہے آوازِ اذاں سے | |