صفحہ اوّل

مری شاخِ اَمل کا ہے ثمر کیا
تری تقدیر کی مجھ کو خبر کیا
کلی گُل کی ہے محتاجِ کشود آج
نسیمِ صبحِ فردا پر نظر کیا!